پلوشہ کہاں رہتی ہے؟
پلوشہ(فرضی نام) کا تعلق ایک قبائلی قبیلے ہے اس کی عمر ابھی صرف سات سال تھی اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔
ماں کا سایہ تو سر سے قدرت نے چھینا لیکن باقی کی ساری کسر زمینی خداوں نے پوری کر دی۔
زندگی کی دھوپ نے ایسا جھلسایا کہ خوبصورت گلابی رنگ اترنے لگا ابھی ماں کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ والد نے دوسری شادی کرلی
نئی ماں کے آنے سے زندگی مزید تنگ ہوگئی اور اب حالات ایسے کٹھن ہوئے کہ نا قابل بیان۔
جب بھی کوئی ستم اس ننھی سی جان پر پڑتا تو اس کی آنکھیں والد پر پڑتیں تمام امیدوں کا سہارا صرف ایک ہی تھا اور وہ تھا پلوشہ کا والد
پلوشہ اپنے والد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی شاید وہ اسے اپنی ماں کا وہ وعدہ یاد دلانا چاہتی تھی جب بستر مرگ پر اس نے اپنے خاوند سے لیا تھا اور وہ وعدہ یہ تھا کہ وہ اس کے مرنے کے بعد پلوشہ کا بہت خیال رکھے گا۔
لیکن اس کا والد پلوشہ سے آنکھیں موڑ لیتا تھا اور پلوشہ کی موٹی موٹی جھیل سی آنکھوں میں آنسو امڈ آتے اور یوں اس کے والد کی تصویر ان آنسووں میں دھندلا جاتی۔
پھر بھی پلوشہ نا امید نہیں ہوئی اور یوں پانچ سال اس امید میں گزار دیئے کہ ایک نہ ایک دن ضرور والد کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنی بیٹی کو ضرور پیار دے گا، اور اسے اپنے قریب کرے گا۔ اسے احساس دلائے گا کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔
اور آخر وہ دن آگیا پلوشہ کے والد نے گھر کے دروازے سے ہی خلاف معمول پلوشہ کو آواز دی
پلوشہ او پلوشہ! کہاں ہے میری بیٹی پلوشہ؟
پلوشہ کی آنکھیں چمک اٹھیں، اس کی جان میں جان آگئی وہ دوڑ کر آئی اور اپنے والد سے لپٹ گئی اور زارو قطار رونے لگی۔
یہ انسو شاید خوشی کے تھے ورزنہ اب زندگی کے غموں اور دکھوں میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ وہ پلوشہ کی آنکھوں میں آنسو لاسکیں۔
پلوشہ کی والد نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ایک لفافے میں بہت سے کپڑے اور کچھے کھانے کا سامان تھا۔ وہ پلوشہ کو دیئے پلوشہ نے جلدی میں سارا سامان صحن میں بیری کے درخت کے نیچے رکھی ہوئی چارپائی پر الٹ دیا۔ وہ شاید ان کپڑوں میں کھلونے تلاش کر رہی تھی لیکن اسے ایک بھی کھلونا نظر نہیں آیا لیکن پلوشہ کو کوئی اداسی نہیں ہوئی کیونکہ پلوشہ کو ماں کے مرنے کے بعد سب سے بڑی خوشی ملی تھی اور وہ خوشی تھی اپنے والد کا پیار!
اتنے میں پلوشہ کی سوتیلی ماں بھی اس چارپائی کے پاس کھڑی تھی اور کبھی پلوشہ اور کبھی اپنے خاوند کو گھورے جارہی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر ماجرا کیا ہے؟
اتنے میں پلوشی کے والد نے خاموشی توڑی اور اپنی بیوی سے دھیرے لیکن بارعب لہجے میں کہا۔
پلوشہ کو تیار کر لو، لوگ دیکھنے آرہے ہیں۔
پلوشہ کی سوتیلی ماں سمجھ گئی کہ کھیل کیا ہے اس کے دل ہی دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ وہ خوشی کے مارے کپڑوں میں نہیں سما رہی تھی، اس کے تو جیسے بھاگ جاگ اٹھے۔۔۔۔۔
لیکن پلوشہ کچھ ناں سمجھ پائی کیونکہ وہ آج اسے ملنے والی خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔
اور یوں پلوشہ کو محض ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض ایک دوسرے قبیلے میں بیاہ دیا گیا۔
پلوشہ کا خاوند نشئی تھا۔۔۔۔ اپنے رشتہ داروں میں تو کیا اپنے قبیلے میں بھی رشتہ دینے کو تیار نہیں تھا۔
لیکن اس کی قسمت دیکھیں کہ بھائیوں میں سب سے خوبصورت بیوی اسے ملی، شاید عالم مدہوشی میں کوئی دعا مانگی ہوگی اور قدرت نے قبول کر لی ہوگی ورنہ کہاں یہ نشئی اور کہاں پلوشہ!
آو اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
جس طرح گھڑی کی سوئیاں اپنے ہی مدار میں گھومتی ہیں اسی طرح پلوشہ کے لیے بھی زندگی گزارنے کا دائرہ کھینچ لیا گیا تھا اس کے اب مقررہ کام تھے جو اس کے حوالے کر دیئے گئے تھے اور وہ کام کیا تھے، بچے پیدا کرنا، گھر کے کام کرنا، خاوند کی خدمت کرنا، اپنے لیے کوئی فرمائش نہ کرنا اور خاوند کے نشئی ہونے کے طعنے سننا اور اسے چپکے سے برداشت کرلینا، یہ وہ اصول تھے جو پلوشہ کے لیے طے کر لیے گئے تھے۔
قصہ مختصر وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ پلوشہ کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہوگئے خاوند کو بھی کچھ عقل آنے لگی اور وہ دیہاڑی کی مزدوری کرنے لگا۔ کیوں کہ مشترکہ خاندان میں اب اس کے بھائی اس کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ پلوشہ کے بچوں کو گھر بیٹھے کھلاتے رہیں
اتنے میں ایک اور آفت آن پڑی پلوشہ کی ایک اور امید دم توڑ گئی، خبر ملی کہ اس کا خاوند کام کے دوران ایک حادثے میں چل بسا ہے۔
پھر کیا تھا۔۔۔۔۔ وہی جو ہمارے معاشرے میں ہوتا رہتا ہے پلوشہ پر ایک دیور کی نظر پڑی اور اس نے پلوشہ کو شادی کا پیغام دے کر سہارا دینے کی پیشکش کر ڈالی لیکن پلوشہ نہ مانی وہ تمام رشتوں سے نا امید ہو چکی تھی وہ تو اب صرف اپنے بچوں کے لیے زندگی گزارنا چاہتی تھی۔
پلوشہ کا انکار اس کے دیوروں کا اچھا نہ لگا اور انہوں نے ایک نہتی خاتون سے بدلہ لینے اور اس کی زندگی تنگ کرنے کا سوچ لیا۔
پلوشہ کو اپنے گھر میں ایک کمرے تک محدود کر دیا۔ باقی گھر کی بجلی، پانی اور دیگر سہولیات پر پلوشہ کا کوئی حق نہیں ہوگا یہ فیصلہ گھر میں ہر چھوٹے بڑے کو سنا دیا گیا۔
اب اس کی حالت یہ ہوئی کہ گھر کے استعمال کے لیے پانی پڑوسیوں کے گھر سے لاتی ہے اور جب اندھیرے میں روشنی کی ضرورت پڑے تو دیا سلائی جلا کر کام چلا لیتے ہیں ماں اور بچے۔
گھر پر کوئی ان یتیم بچوں کا امداد دینے کے لیے آئے تو دیور گالم گلوچ اور بہتان لگا کر واپس بھیج دیتے ہیں۔
خوددار ہے اس لیے بھیک بھی نہیں مانگ سکتی۔ صرف ان گھروں میں کچھ امید لیکر جاتی ہے جہاں اسے عزت نفس مجروح نہ ہونے کا یقین ہوتا ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ میں اس لیے اندراج نہیں ہوا کہ شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا اور اسی وجہ سے بچوں کو سکول بھی نہیں پڑھا رہی
لیکن پلوشہ کے لیے یہ کوئی اتنے بڑے مسائل نہیں ہیں پلوشہ تو اس سے بڑھ کر غم اور تکلیفیں برداشت کر چکی ہے۔
پلوشہ کے لیے تو سب بڑا تکلیف دہ لمحہ وہ تھا جب ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ چھوٹے بیٹے کی دونوں گردے خراب ہیں ایک ختم ہو چکا ہے اور دوسرے گردے کا آپریشن نہ کروایا تو وہ بھی فیل ہو جائے گا اور خدا نخواستہ یہ ننھا پھول وقت سے پہلے ہی مرجھا جائے گا۔
سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا پیدائش سرٹیفیکیٹ نہیں بنا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک سچی کہانی ہے ایک قبائلی خاتون کی جس کو مرنے سے پہلے ہی ہماے معاشرے نے جہنمی ہونے کی سزا دے دی ہے۔۔۔۔۔
ابھی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پلوشہ کہاں رہتی ہے؟ پلوشہ کوہاٹ میں رہتی ہے اور ہمارے گھر آتی رہتی ہے کئی بار کوشش کی کہ اپنے دوستوں اور سماجی تنظیموں کو ان کے گھر کا پتہ بتا دوں لیکن پلوشہ نے ہمارے گھر والوں کے ذریعے منع کر دیا کیوں کہ وہ خوددار ہے اور دیور اس کے ظالم۔۔۔۔۔۔
آپ اگر پلوشہ کی امداد کرنا چاہتے ہیں تو مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ